حکومتی اہلکار کس طرح پاکستانی خاتون صحافیوں کو تنگ کر رہے ہیں اور کیا کیا ۔۔۔۔ پورے ملک میں نیا ٹاپ ٹرینڈ چل نکلا
اسلام آباد(ویب ڈیسک) خواتین صحافیوں کے ایک گروپ اور تجزیہ کاروں نے تحفظ فراہم کیے جانے کا مطالبہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر تحریک انصاف کی حکومت کے حامی لوگوں کی جانب سے ان پر ’توہین آمیزحملے‘ ہورہے ہیں۔مختلف صحافتی اداروں سے تعلق رکھنے والی 16 خواتین صحافیوں
اور تجزیہ کاروں نے مشترکہ بیان میں کہا کہ ’آن لائن حملوں کے پیش نظر صحافتی صنعت میں کام کرنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے‘۔ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا کہ ’آن لائن ہراساں بننے والی خواتین مختلف نظریات یا نقطہ نظر کی حامل ہیں جو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پر تنقید کرتی ہیں‘۔انہوں نے کہا کہ ’کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے حکومتی پالیسیاں پر مذکورہ خواتین نے شدید تنقید کی تھی‘۔مہمل سرفراز، بے نظیر شاہ، عاصمہ شیرازی، ریما عمر اور منیزے جہانگیر ان خواتین صحافیوں اور تجزیہ کاروں میں شامل ہیں جنہوں نے دستاویز پر دستخط کیے ہیں۔بیان میں کہا گیا کہ حکومتی حکام نے آن لائن حملوں کے اکسایا اور اس کے بعد ٹوئٹر اکاؤنٹس پر بڑی تعداد میں شیئر کیا گیا اور انہوں نے اپنی وابستگی حکمراں جماعت سے ظاہر کی۔اعلامیہ کے مطابق خواتین صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی تصاویر اور ویڈیوز کو منظم مہم کے تحت مسخ حالت میں پھیلائی گئی۔انہوں نے کہا کہ ’انہیں سوشل میڈیا پر جعلی خبرپھیلانے والا، عوام کا دشمن اور رشوت خور قرار دیا گیا تاکہ صحافتی ساکھ متاثر ہو‘۔اعلامیہ کے مطابق آن لائن حملہ کرنے والوں نے صنف کی بنیاد پر انہیں تضحیک کا بھی نشانہ بنایا اور جسمانی یا جنسی تشدد کی دھمکیاں دی گئیں۔بیان میں کہا گیا کہ ’رپورٹرز اور تجزیہ کاروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو ہیک کرنے کی کوشش کی گئیں اور معلومات تک محدود رسائی کردی گئی۔انہوں نے کہا کہ ’خواتین کے لیے میڈیا میں فرائض انجام دینا انتہائی مشکل ہوگیا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پرآزادانہ تبصرہ کرنا دشوار ہے اور متعدد کو سیلف سینسر پر زور دیا گیا‘۔
واضح رہے کہ انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے گزشتہ جولائی میں صحافیوں کے خلاف دھمکیوں کا نوٹس لینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس معاملے پر کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔بیان میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ’اپنے کارکنوں کو میڈیا میں بار بار خواتین کو نشانہ بنانے سے روکیں‘ اور ’پارٹی کے تمام ممبروں کو ایک واضح پیغام بھیجیں کہ براہ راست یا بلاواسطہ ان آن لائن ہراساں کرنے سے باز رہیں۔انہوں نے حکومت سے ’ایسے تمام حکومتی افراد کے خلاف کارروائی کرنے کا بھی مطالبہ کیا‘۔بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے شیریں مزاری نے کہا کہ ’خواتین صحافیوں کو نشانہ بنانے اور ان کے خلاف تضحیک آمیز باتیں کرنا پریشان کن ہیں‘۔اعلامیے میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کی انسانی حقوق سے متعلق قائمہ کمیٹیوں سے بھی دھمکی آمیز ماحول کا نوٹس لینے اور ’حکومت کو جوابدہ رکھنے‘ کا مطالبہ کیا گیا۔اس کے جواب میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ٹوئٹ کیا کہ خواتین صحافیوں کو انسانی حقوق کمیٹی کی سربراہ کی حیثیت سے دھمکیوں کا نوٹس لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’آپ سب کو دعوت دینا چاہوں گا کہ وہ ہماری کمیٹی کے سامنے مسئلہ مختصر طور پر پیش کریں‘۔ایم این اے محسن داوڑ نے صحافیوں کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ دھمکیوں کے ساتھ تنقید کا جواب دینا فاشزم کی علامت ہے۔انہوں نے ٹوئٹ میں کہا کہ ’آزادی اظہار پر یقین رکھنے والے تمام افراد کو اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ان فاشسٹانہ تدبیروں کی مذمت کے لیے متحد ہونا چاہیے۔
The post حکومتی اہلکار کس طرح پاکستانی خاتون صحافیوں کو تنگ کر رہے ہیں اور کیا کیا ۔۔۔۔ پورے ملک میں نیا ٹاپ ٹرینڈ چل نکلا appeared first on Markhor TV.
from Markhor TV https://ift.tt/3gNITO6
No comments